Orhan

Add To collaction

اک ان چاہا رشتہ

اک ان چاہا رشتہ از سحر نور قسط نمبر7

وہ بچپن کے انسو,وہ بچپن کی تکلیفیں. .😢
وہ ننھی ننھی خواہشیں,وہ معصوم محبت کی امیدیں. بہے ہیں کتنے انسو, ِاک اِک کا حساب ہے...
یاد ہے مجھے اے دل سب یاد ہے..
بچپن سے لڑکپن, لڑکپن سے جوانی.. پھر بھی کم نہ ہوئی ہماری یہ نادانیاں لوگوں سے خوشیوں کی امید رکھنا..
وہ انجانے میں اپنے ہی آنسو بہا ڈالنا..
اپنے حق کو اوروں پہ قربان کرنا...
پھر بھی سب کا ہمیں ٹھوکریں مارنا... وہ دل سے ابلتے سرخ خون کا سمندر..
بے رنگ آنسؤوں میں چھپانے کی کوشش کرنا.. آنکھوں کے آنسو بار بار پونچھ ڈالنا...
دوستوں کو بہانے بہانے سے ٹالنا...
دل کے سمندر میں میرے اے دوست.. آے ہیں کتنے طوفان سب کا حساب ہے..
بہے ہیں کتنے انسو, ِاک اِک کا حساب ہے...
یاد ہے مجھے اے دل سب یاد ہے 🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🌹🌹🍁🌹🌹🍁🍁🌹🌹🍁🍁 زین۔۔۔ اوےے۔۔ وہ دیکھ۔۔ اسد نے زین کو کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔ کیا ہے۔۔ زین ابھی بھی نوٹس میں سر دیے کھڑا تھا یار تیری وہ جارہی ہے۔۔ اسد نے زین کا منہ اوپر کر کے کہا۔ زین نے سر کو گھمایا تو اسنے زرش کو جاتے ہوئے دیکھا ۔ چل جا بھی اب ۔۔ یہیں بیٹھا رہے گا کیا اب۔۔۔ جارہا ہوں دھکے کیوں دے رہا۔۔۔ زین نے اسد کو گھورا۔ زین زری کی جانب بھاگا۔ کیونکہ اس نے اس کے بیگ سے کچھ گرتے ہوئے دیکھا۔ جب قریب جاکر دیکھا تو اسکا یونیورسٹی کارڈ تھا جو شاید زرش نے بے دھیانی میں بیگ ڈالا تھا اور پھر وہ گر گیا۔ زری سر جھکاے تیزی سے گیٹ کی طرف جارہی تھی۔ اسکی ہمیشہ سے عادت تھی وہ یونیورسٹی میں سر جھکا کر چلتی تھی۔ اس عادت کی وجہ سے اسکی بہت بار ٹکر ہوتے ہوتے رہی تھی۔ اور کئی بار اس نے فضول کمینٹس بھی سنے راستے میں چلتے ہوئے۔۔ ایک بار تو حد ہی ہوگئی۔۔ وہ ڈیپارٹمنٹ کی جانب جارہی تھی کہ اسے پیچھے سے آواز آئی جھکی جھکی نظر تیری۔۔۔ اگے اسنے کچھ نہیں سنا اور تیزی سے ڈیپارٹمنٹ کے اندر چلی گئی۔ اس سب کے باوجود اس کی عادت وہی رہی۔ سنئے۔۔۔ زین اب بڑے بڑے قدم اٹھاتا اس کے پیچھے چل رہا تھا۔ زرش۔۔ پلیز رکیے۔۔ زین کی آواز کو پتہ نہیں کیا ہوا نکل ہی نہیں رہی تھی۔ زری کو لمحے بھر کیلئے محسوس ہوا اسے کسی نے پکارا ہے۔ پر وہ اب بھی چل رہی تھی۔ ِسِسٹر۔۔۔ رکیے۔۔ اب کی بار زین نے زرا اونچا بولا۔ سِسٹر۔۔۔ بات سنیں۔۔ زین اسکے سامنے آگیا۔ زری ابھی تک لفظ سِسٹر پر ہی اٹکی ہوئ تھی۔ یہ اپ کا کا کارڈ۔۔ وہ۔۔۔گر گیا تھا ۔۔ وہ پیچھے۔۔ زین اٹک اٹک کر بول رہا تھا۔ زری کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔ کیونکہ وہ ابھی تک سِسٹر ہی پہ تھی۔ یہ آپکا کارڈ۔۔۔ سِسٹر۔۔ اب کی بار زین نے کارڈ اسکے سامنے لہرایا۔۔ اوہ۔۔ اچھا۔۔ زری نے کارڈ لیتے ہوئے کہا۔ دھیان رکھا کریں اپنی چیزوں کا۔۔۔ ایسے ہی کسی غلط انسان کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔۔ بہت شکریہ۔۔ زری نے دھیمے لہجے میں کہا اور پھر سے آگے بڑھ گئی۔ زین واپس اسد پاس آیا تو اپنی بے ترتیب سانسوں کو بحال کرنے لگا۔ اور ساری کاروائی اسد کے گوشگوار کی کیوں کے اسے سکون نہیں آرہا تھا۔ اوے۔۔ سیدھا سِسٹر ہی بول دیا۔۔ اسد کامنہ کھلا ہوا تھا۔ پتہ نہیں یار مجھے سمجھ نہیں آیا۔۔ زین اب اپنی پیشانی پہ آئی پسینہ کی ننھی بوندوں کو صاف کررہا تھا۔ ہاہاہا۔۔ تجھے سمجھ نہیں آیا۔۔ ہاہا۔۔ کیا پلان ہے۔ سِسٹر کی آڑ میں کچھ اور ۔۔۔ اسد نے اسے آنکھ ماری۔۔ بکواس نہ کر یار۔ ۔۔ میں نے کہا نا مجھے سمجھ نہیں آئی۔ اور میں نے ایسا کب کہا کہ میں زرش کے بارے میں کچھ الٹا سیدھا سوچا ہے۔۔ بول۔۔ زین اب غصہ میں تھا۔ تیری حرکات نے کہا۔۔ ایسی مشکوک ہی ہیں۔۔ اسد اب گھبرا گیا کیوں کہ اسے زین کے غصے کا علم تھا۔ آج یہ بکواس کی ہے نا دوبارہ نہ کرنا ورنہ تجھے پتہ ہے میرا۔ میں نہی جانتا یہ سب کیسے ہوا۔۔ پر مجھے ایسے لگتا جیسے میرے منہ کہلوایا گیا زرش کو بہن۔۔ ہاں وہ بہن کہے جانے کے ہی لائق ہے۔ تبھی تو اب سمجھ آیا مجھے میں اسکی کیوں اتنی عزت کرتا ہوں۔۔ زین کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ تونے اج تک تو کسی لڑکی کو بہن نہیں کہا۔۔ یہ اچانک سے کیا ہوا۔
اور لڑکیاں۔۔ یار وہ بہن بننا ہی نہیں چاہتی۔۔ انکی ڈیمانڈ کے مطابق میں ان سے ٹریٹ کرتا ہوں۔ میں خود دعوت نہیں دیتا انکو۔۔ زین اب چڑ گیا۔۔ اور سن۔۔ اگر میں بہن کہا ہے تو انکا بھائی بن کر دکھاؤں گا۔ اور تو مزید کوئی بکواس نہ کری اب۔۔ ورنہ تیرا بھی لحاظ نہی کرونگا۔ زین اسے تنبیہ کرتا ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلا گیا۔
🌹🍁🌹🍁🌹🍁🍁🍁🌹🌹🍁🍁🌹🌹🍁🍁🌹🌹🍁 کچھ لمحوں میں انسان واقع ہی بےبس ہو جاتا ہے۔ اسکی بےبسی بس صرف اسی تک محدود ہوجاتی ہے نا وہ کسی سے مدد مانگ سکتا اور نا ہی وہ کسی کو کچھ کہ سکتا۔ خودمیں ایک جنگ سی شروع ہوجاتی ہے اور ہر بار وہ خود کو ہار جاتا۔
زری اس لمحے سسک رہی تھی آنسو اس کے بہہ تو رہے تھے پر وہ شائد اسکی تکلیف کو کم کرنے کے لیے بھت کم تھے۔ وہ کیسے کہتی اور کیا کہتی کیا کچھ گزر گیا اس پے ایک قیامت ہی تو برپا ہوئی تھی۔ وہ ایسے ہی تڑپ رہی تھی جیسے بن آب ایک مچھلی۔ وہ کسی کو اس لمحے اپنے سامنے چاہتی تھی کوئی ایسا جو اسکی تکلیف کو اس سے پوچھے بینا ہی جان جاۓمگر ایسا کوئی کہاں ملتا ہے۔ وہ اس کے گلے لگ کے رونا چاہتی تھی وہ سب کہنا چاہتی تھی کے میرا کوئی قصور نئی۔ میں تو خوف زدہ ہوگئی تھی کمزور پڑ گئی تھی۔ پر شائد اگر وہ کسی سے کہ بھی دیتی تو اس نے اسے ہی غلط سمجھنا تھا۔ کہنا تھا آخر تمنے اسے اتنی چھوٹ دی ہی کیوں تھی کے وہ اپنی حد پار کرتا۔ لیکن کوئی یہ تو سمجھے کے میں نے اسے کوئی چھوٹ نئی دی تھی۔ میں تو بس اس سے دور رہنا چاہتی تھی اور اس انسان کو خود سے دور رکھنا چاہتی تھی تا کے وہ میری عزت کا تماشا نا بنائے۔ اسجد خان نے اسکے ساتھ جو زیادتی کی تھی وہ اس سے پل پل ٹوٹ رہی تھی۔ وہ اسکے ان الفاظ سے خوفزدہ بھی تھی کہ اگر اس نے کچھ غلط کیا تو کیا ہوگا۔
احساس گناہ بڑھ رہا تھا۔ پتہ نہیں اللّه‎‎ پاک مجھے معاف کریں گے بھی کہ نہیں۔ وہ رو رو کے تھک چکی تھی۔ ایک ہی رستہ دکھا اور ایک ہی در۔ جہاں سے وہ کبھی خالی نہیں لوٹی تھی اسنے وضو کیا اور جاۓنماز پے کھڑی ہوگئی۔
اللّہ پاک آپ تو سب جانتے ہو.. سب سمجھتے ہو.. آپ جانتے ہو میں مجرم نہی ہوں.. پھر بھی خود کو جرم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا.. اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ میں کہاں غلط ہوں... آگے کھائی نظر آتی ہے.. تو پیچھے بھی اندھیرا.. قدم آگے بڑھاوں تو بھی نقصان... نہ بڑھاوں تو بھی مجرم... زندگی کے بعض لمحے ایسے ہوتے ہیں جب ایسی سچیویشن آجاتی ہے کہ انسانی عقل جواب دے جاتی ہے.. ایسے حالات میں صرف ایک ہی ذات ہے جو مدد کر سکتی ہے... اور وہ میرا اللّہ ہے..بے شک..😔😔 اور پھر اس کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ بن کہے ہی وہاں سن لیا گیا تھا سب کچھ اور اب وہ پرسکون تھی 🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🍁🌹🌹🍁🍁🍁🍁🌹🍁🍁🍁🍁 زری دن بدن ویک ہورہی تھی۔ گھر سے اس کی کسی کوئی بات چیت نہیں تھی بس خاموشی سے بیٹھی رہتی اور اپنی کتابوں کو سامنے رکھے خلاوں میں گھورتی رہتی۔ دوست بھی چھوٹ گئی۔ وہ کدھر جاتی۔۔ سہارے بھی منہ موڑ گئے تھے ۔ اللّه‎‎ پاک۔۔ کیوں کیا ایسا۔۔ بتائیں نا کیوں کیا۔۔ ایسے لوگ ہیں آپ کے۔۔ ایسے مرد ہوتے ہیں۔۔ کیا یہی ہے حقیقت مردوں کی۔۔ کہ وہ ہوس کے غلام ہوتے ہیں۔۔ میرا کیا قصور تھا۔۔ میری نیت کب خراب تھی۔۔ جو سزا دی آپ نے۔۔ ہاں نہیں مانی آپ کی بات میں نے۔۔ نا محرم تھا وہ میرے لیے۔۔ پر میں نے تو ایک پاک رشتہ دیا تھا اسے۔۔ اس نے مجھے گندا کیوں کیا۔۔۔ اللّه‎‎ پاک۔۔ مجھے کچھ نہیں معلوم۔۔ کچھ معلوم نہیں تھا۔۔ وہ تو کہتا تھا میں معصوم ہوں۔۔ تو کیوں اس نے میری معصومیت کا جنازہ نکال دیا۔
زری بے انتہا رو رہی تھی۔۔ رات کا آخری پہر تھا اور وہ مسلسل رو رہی تھی۔۔ یہ تو اب معمول بن گیا تھا اسکی نیند ختم ہو گئی تھی۔ میں نے کبھی ایسے مرد نہیں دیکھے۔۔ میں تو جانتی ہی نہیں اس قسم کے لوگوں کو۔۔ میں تو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم جیسے پاکیزہ مرد کو جانتی ہوں۔ میں ابوبکر کو جانتی ہوں۔۔ میں عمرکو جانتی ہوں۔۔جس نے ام المومینین کو باہرکسی کام کی غرض سے دیکھا تو حضور سے پردہ کی گذارش کی۔ میں تو عثمان کو جانتی ہوں۔۔ جس کی حیا کی گواہی فرشتے دیتے ہیں۔۔ بتائیں نا کدھر ہیں ان جیسے مرد جو عزت دیتے ہیں۔ کیا ہوجاتا۔۔ کیا ہوجاتا۔۔ ایک میں نہ ہوتی۔۔ دنیا چل رہی تھی نا۔۔ میری کسی کو ضرورت نہیں ہے۔۔ کسی کو بھی نہیں۔۔ آپ کچھ کہتے کیوں نہیں ہیں۔۔ کب سے رو رہی ہوں۔۔ آپ بولیں نا کہ آپ سب کو پوچھ لیں گے۔۔ کسِ لمحے اس پہ نیند غالب آئ کس لمحے وہ سو گئی۔۔ اسے کچھ معلوم نہیں رہا۔۔اسے صبر دے رہا تھا وہ۔۔ بے شک وہ دلوں کے حال خوب جانتا ہے۔ 🍁🌹🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁 زرش پڑھنے کی پوری کوشش کر رہی تھی مگر لفظ اس کی آنکھوں کے سامنے لنگی ڈانس کر رہے تھے۔۔😁😀 کیا مصیبت۔۔ ساری ذلالت میرے لیے ہی رہ گئی ہے۔۔ اب وہ فل تپی بیٹھی تھی۔ ظاہر سی بات ہے جب دماغ ہی جگہ پر نہ ہو تو لفظ تو گھومیں گے ہی۔ اس بات کو وہ کہہ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس سے پڑھا نہیں جارہا۔ اس نے آخر تنگ آکر کتابیں بند کردیا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس سب پریشانی کا حل کہاں سے نکالے۔ آخر اسے اپنی ایک بہت اچھی دوست کا خیال آیا۔ وہ اسے میسج کرنے لگی۔ اسلام علیکم نمرہ۔۔ کیسی ہو۔؟ نمرہ کا کچھ ہی دیر میں جواب ملا۔ میں ٹھیک ہوں۔۔ تمہیں میں آج کیسے یاد آگئی۔ زری اس کی اس بات سے واقعی شرمندہ ہوئ۔ نہیں۔۔ ایسی بات نہیں بس وہ کچھ پریشان تھی تو رابطہ نہیں رکھ پائی۔ کیا ہوا۔۔ کیا مسئلہ ہوا۔۔ ؟ نمرہ کا فوراً جواب آیا۔ زری نے کچھ سوچ کر ساری بات اس سے کہہ دی۔ نمرہ مجھے لگتا میں اب پاک نہیں رہی۔۔ میرے گناہ میرے پیچھے اس طرح سے بھاگ رہے ہیں جیسے کوئی بھوکا کھانے کے پیچھے۔ زری رو دی۔ ایسا مت سوچا کرو۔ اور جو اس نے دھمکی لگائی ہے نا کہ وہ کچھ کر سکتا۔ جس طرح سے تم بتا رہی ہو اس سے وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ تم نے اپنی کوئی تصویر وغیرہ تو نہیں دی اسے؟ نمرہ کا جواب آیا۔ نہیں کوئی بھی نہیں۔نمبر بھی نہیں کچھ بھی نہیں۔۔ زری نے ریپلاے دیا۔ گڈ۔۔ بلاک کر دیا ہے نا۔۔ تو سوچنا چھوڑ دو۔ اور پرسکون رہو۔۔ اللّه‎‎ پاک سے معافی مانگو۔ وہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ اور ایک اور کام کرو۔۔ قرآن مجید کھولو۔۔ سورۃ الضحٰی پڑھو ترجمے کے ساتھ۔۔ جب بھی پریشان ہو بس وہ پڑھ لیا کرو بہت تسلی دی ہے اللّه‎‎ پاک نے اس میں۔ ٹھیک ہے میں ابھی پڑھتی ہوں۔ زری اٹھی وضو کیا اور قرآن مجید کھولا۔ اس کے پاس قرآن مجید ترجمے تفسیر والا تھا۔ بسمہ اللّه‎‎ الرحمن الرحیم ترجمہ: قسم ہے چاشت کی اور قسم ہے رات کی جب چھا جائے! نہ تو تیرے ربؔ نے تجھے چھوڑ اور نہ ہی وہ تجھ سے بیزار ہوا ( اے احکامات قرآن پر عمل کرنے والے شخص) تیرے لیے انجام آغاز سے بہت بہتر ہوگا تیرا ربؔ اللہ عنقریب تجھے نوازے گا اور تو راضی ہو جائے گا کیا اُس نے تجھے یتیم پاکر جگہ نہیں دی ؟؟؟ اور تجھے راہ بھولا پاکر ہدایت نہیں دی ؟؟؟ اور تجھے نادر پاکر تونگر نہیں بنا دیا ؟؟؟ پس تو بھی یتیم پر سختی نہ کیا کر اور نہ ہی سوال کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ اور اپنے ربؔ رحمٰن کی نعمت بھری قرآنی احادیث بیان کیا کر وہ جیسے جیسے پڑھتی جارہی تھی ویسے ویسے اس کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہنے لگے۔ میں آج تک اس سب سے بے خبر کیسے تھی۔۔ وہ تو رحیم ہے۔۔ رحمٰن ہے۔۔ میں اپنے اصل سے دور کیسے ہوگئی۔ یہ تسلی اسکے اندر لگی آگ پہ پانی پھوار ثابت ہوئ۔ کافی پرسکون تھی اب وہ۔

   0
0 Comments